برطانوی مورخ کیرولین فنکل نے اپنی کتاب ’عثمان کا خواب‘ میں لکھا ہے کہ ایک رات عثمان ایک بزرگ شیخ ادیبالی کے گھر میں سو رہے تھے کہ انھوں نے ایک خواب دیکھا کہ ان کے سینے سے ایک درخت اگ کر ساری دنیا پر سایہ ڈال رہا ہے۔ انھوں نے جب شیخ کو خواب سنایا تو انھوں نے کہا: ’’عثمان، میرے بیٹے، مبارک ہو، خدا نے شاہی تخت تمھارے اور تمھاری اولاد کے حوالے کر دیا ہے۔‘
اس خواب نے عثمان غازی کے لیے مہمیز کا کام کیا کیوں کہ وہ سمجھنے لگے کہ اب انھیں خداوندی تائید حاصل ہو گئی ہے۔ اس کے بعد انھوں نے آس پاس کی سلجوق اور ترکمان ریاستوں، اور بالآخر بازنطینیوں کو پے در پے شکستیں دے کر اناطولیہ کے بڑے حصے پر اپنا جھنڈا گاڑ دیا۔
یہی خواب بعد میں چھ صدیوں تک راج کرنے والی سلطنتِ عثمانیہ کا بنیادی جواز اور اسطورہ بن گیا جس کے سائے میں انھوں نے نہ صرف اناطولیہ بلکہ تین براعظموں کے بڑے حصوں پر صدیوں تک حکومت کی۔
عثمان کے جانشینوں نے جلد ہی اپنی نظریں یورپ پر جما دیں۔ 1326 میں انھوں نے یونان کا دوسرا بڑا شہر تھیسالونیکی فتح کر لیا، جب کہ 1389 میں وہ سربیا پر قابض ہو گئے۔ لیکن ان کی تاریخ ساز کامیابی 1453 میں بازنطینی دارالحکومت قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) کی فتح تھی۔
مسلمان پچھلے سات سو برسوں سے اس شہر پر قبضہ کرنے کی کوششیں کرتے چلے آئے تھے لیکن اس کا جغرافیہ کچھ ایسا تھا کہ وہ ہر بار ناکام رہے۔
قسطنطنیہ کو تین طرف سے بحیرۂ باسفورس نے گھیرے میں لیا ہوا ہے جو اس کے لیے شہر پناہ کا کام کرتا ہے۔ بازنطینیوں نے گولڈن ہورن کو زنجیریں لگا کر بند کر رکھا تھا جب کہ دوسری جانب ان کے 28 جنگی جہاز پہرے پر مامور تھے۔
22 اپریل 1453 کو عثمانی سلطان محمد فاتح نے ایک ایسی چال چلی جو کسی کے سان و گمان میں بھی نہ تھی۔ انھوں نے خشکی پر تختوں کی شاہراہ تیار کی اور اس پر تیل اور گھی ڈال کر اسے خوب پھسلواں بنا دیا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے 80 بحری جہاز اس راستے پر مویشیوں کی مدد سے گھسیٹ کر دوسری طرف پہنچا دیے اور شہر کے حیرت زدہ محافظوں پر آسانی سے قابو پا لیا۔
محمد فاتح نے اپنا دارالحکومت قسطنطنیہ منتقل کر کے اپنے لیے قیصرِ روم کا خطاب اختیار کیا۔